سلسلہ “فہم القرآن”

سلسلہ “فہم القرآن ”

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے…

“نیکی یہی نہیں کہ تم مشرق یا مغرب کو (قبلہ سمجھ کر ان) کی طرف منہ کرلو بلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ خدا پر اور روز آخرت پر اور فرشتوں پر اور (خدا کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائیں۔ اور مال باوجود عزیز رکھنے کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں اور مانگنے والوں کو دیں اور گردنوں (کے چھڑانے) میں (خرچ کریں) اور نماز پڑھیں اور زکوٰة دیں۔ اور جب عہد کرلیں تو اس کو پورا کریں۔ اور سختی اور تکلیف میں اور (معرکہ) کارزار کے وقت ثابت قدم رہیں۔ یہی لوگ ہیں جو (ایمان میں) سچے ہیں اور یہی ہیں جو (خدا سے) ڈرنے والے ہیں.”

سورة البقرة :177

اس پاک آیت میں صحیح عقیدے اور راہ مستقیم کی تعلیم ہو رہی ہے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان کے بارے میں سوال کیا گیا کہ ایمان کیا چیز ہے؟ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرمائی، انہوں نے پھر سوال کیا حضور نے پھر یہی آیت تلاوت فرمائی پھر یہی سوال کیا آپ نے فرمایا سنو نیکی سے محبت اور برائی سے عداوت ایمان ہے (ابن ابی حاتم) لیکن اس روایت کی سند منقطع ہے، مجاہد حضرت ابو ذر سے اس حدیث کو روایت کرتے ہیں حلانکہ ان کی ملاقات ثابت نہیں ہوئی۔
ایک شخص نے حضرت ابو ذر سے سوال کیا کہ ایمان کیا ہے؟ تو آپ نے یہی آیت تلاوت فرما دی اس نے کہا حضرت میں آپ سے بھلائی کے بارے میں سوال نہیں کرتا میرا سوال ایمان کے بارے میں ہے تو آپ نے فرمایا سن ایک شخص نے یہی سوال حضور سے کیا آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرما دی وہ بھی تمہاری طرح راضی نہ ہوا تو آپ نے فرمایا مومن جب نیک کام کرتا ہے تو اس کا جی خوش ہو جاتا ہے اور اسے ثواب کی امید ہوتی ہے اور جب گناہ کرتا ہے تو اس کا دل غمیگین ہو جاتا ہے اور وہ عذاب سے ڈرنے لگتا ہے (ابن مردویہ) یہ روایت بھی منقطع ہے اب اس آیت کی تفسیر سنئے۔

مومنوں کو پہلے تو حکم ہوا کہ وہ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں پھر انہیں کعبہ کی طرف گھما دیا گیا جو اہل کتاب پر اور بعض ایمان والوں پر بھی شاق گزرا پس اللہ تعالیٰ نے اس کی حکمت بیان فرمائی کہ اس کا اصل مقصد اطاعت فرمان اللہ ہے وہ جدھر منہ کرنے کو کہے کر لو، اہل تقویٰ اصل بھلائی اور کامل ایمان یہی ہے کہ مالک کے زیر فرمان رہو، اگر کوئی مشرق کیطرف منہ کرے یا مغرب کی طرف منہ پھیر لے اور اللہ کا حکم نہ ہو تو وہ اس توجہ سے ایماندار نہیں ہو جائے گا بلکہ حقیقت میں باایمان وہ ہے جس میں وہ اوصاف ہوں جو اس آیت میں بیان ہوئے، قرآن کریم نے ایک اور جگہ فرمایا ہے

(لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاۗؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ) الحج) یعنی تمہاری قربانیوں کے گوشت اور لہو اللہ کو نہیں پہنچتے بلکہ اس تک تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔

حضرت ابن عباس اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ تم نمازیں پڑھو اور دوسرے اعمال نہ کرو یہ کوئی بھلائی نہیں۔ یہ حکم اس وقت تھا جب مکہ سے مدینہ کی طرف لوٹے تھے لیکن پھر اس کے بعد اور فرائض اور احکام نازل ہوئے اور ان پر عمل کرنا ضروری قرار دیا گیا، مشرق و مغرب کو اس کے لئے خاص کیا گیا کہ یہود مغرب کی طرف اور نصاریٰ مشرق کی طرف منہ کیا کرتے تھے ، پس غرض یہ ہے کہ یہ تو صرف لفظی ایمان ہے ایمان کی حقیقت تو عمل ہے، حضرت مجاہد فرماتے ہیں بھلائی یہ ہے کہ اطاعت کا مادہ دل میں پیدا ہو جائے، فرائض پابندی کے ساتھ ادا ہوں، تمام بھلائیوں کا عامل ہو، حق تو یہ ہے کہ جس نے اس آیت پر عمل کر لیا اس نے کامل اسلام پا لیا اور دل کھول کر بھلائی سمیٹ لی، اس کا ذات باری پر ایمان ہے یہ وہ جانتا ہے کہ معبود برحق وہی ہے فرشتوں کے وجود کو اور اس بات کو کہ وہ اللہ کا پیغام اللہ کے مخصوص بندوں پر لاتے ہیں یہ مانتا ہے، کل آسمانی کتابوں کو برحق جانتا ہے اور سب سے آخری کتاب قرآن کریم کو جو کہ تمام اگلی کتابوں کو سچا کہنے والی تمام بھلائیوں کی جامع اور دین ودنیا کی سعادت پر مشتمل ہے وہ مانتا ہے، اسی طرح اول سے آخر تک کے تمام انبیاء پر بھی اس کا ایمان ہے، بالخصوص خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پربھی۔ مال کو باوجود مال کی محبت کے راہ اللہ میں خرچ کرتا ہے،

صحیح حدیث شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں افضل صدقہ یہ ہے کہ تو اپنی صحت اور مال کی محبت کی حالت میں اللہ کے نام (پر) دے باوجودیکہ مال کی کمی کا اندیشہ ہو اور زیادتی کی رغبت بھی ہو (بخاری ومسلم )

اس کا مطلب یہ ہے تم صحت میں اور مال کی چاہت کی حالت میں فقیری سے ڈرتے ہوئے اور امیری کی خواہش رکھتے ہوئے الله کے نام پر صدقہ کرو

قرآن کریم میں سورۃ دھر میں فرمایا گیا” مسلمان باوجود کھانے کی چاہت کے مسکینوں یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تمہیں اللہ کی خوشنودی کے لئے کھلاتے ہیں نہ تم سے اس کا بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ”
اسی طرح سورة آل عمران میں فرمایا گیا ” جب تک تم اپنی چاہت کی چیزیں اللہ کے نام نہ دو تم حقیقی بھلائی نہیں پاسکتے۔ اورسورة الحشرمیں فرمایا گیا ” اور اپنی ذات پر دُوسروں کو تر جیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں۔” پس یہ لوگ بڑے پایہ کے ہیں کیونکہ پہلی قسم کے لوگوں نے تو اپنی پسندیدہ چیز باوجود اس کی محبت کے دوسروں کو دی لیکن ان بزرگوں نے اپنی چاہت کی وہ چیز جس کے وہ خود محتاج تھے دوسروں کو دے دی اور اپنی حاجت مندی کا خیال بھی نہ کیا . ۔ذوی القربی انہیں کہتے ہیں جو رشتہ دار ہوں صدقہ دیتے وقت یہ دوسروں سے زیادہ مقدم ہیں۔ حدیث میں ہے مسکین کو دینا اکہرا ثواب ہے اور قرابت دار مسکین کو دینا دوہرا ثواب ہے، ایک ثواب صدقہ کا دوسرا صلہ رحمی کا۔ تمہاری بخشش اور خیراتوں کے زیادہ مستحق یہ ہیں، قرآن کریم میں ان کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم کئی جگہ ہے۔ یتیم سے مراد وہ چھوٹے بچے ہیں جن کے والد مر گئے ہوں اور ان کا کمانے والا کوئی نہ ہو نہ خود انہیں اپنی روزی حاصل کرنے کی قوت وطاقت ہو، حدیث شریف میں ہے بلوغت کے بعد یتیمی نہیں رہتی مساکین وہ ہیں جن کے پاس اتنا ہو جو ان کے کھانے پینے پہننے اوڑھنے رہنے سہنے کا کافی ہو سکے ، ان کے ساتھ بھی سلوک کیا جائے جس سے ان کی حاجت پوری ہو اور فقر و فاقہ اور قلت وذلت کی حالت سے بچ سکیں،

بخاری ومسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مسکین صرف وہی لوگ نہیں جو مانگتے پھرتے ہوں اور ایک ایک دو دو کھجوریں یا ایک ایک دو دو لقمے روٹی کے لے جاتے ہوں بلکہ مسکین وہ بھی ہیں جن کے پاس اتنا نہ ہو کہ ان کے سب کام نکل جائیں نہ وہ اپنی حالت ایسی بنائیں جس سے لوگوں کو علم ہو جائے اور انہیں کوئی کچھ دے دے ۔ ابن السبیل مسافر کو کہتے ہیں، اسی طرح وہ شخص بھی جو اطاعت اللہ میں سفر کر رہا ہو اسے جانے آنے کا خرچ دینا، مہمان بھی اسی حکم میں ہے، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ مہمان کو بھی ابن السبیل میں داخل کرتے ہیں اور دوسرے بزرگ سلف بھی۔ سائلین وہ لوگ ہیں جو اپنی حاجت ظاہر کر کے لوگوں سے کچھ مانگیں، انہیں بھی صدقہ زکوٰۃ دینا چاہئے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سائل کا حق ہے اگرچہ وہ گھوڑے پر سوار آئے۔

پھر آیت میں آگے فرمایا نماز کو وقت پر پورے رکوع سجدے اطمینان اور آرام خشوع اور خضوع کے ساتھ ادا کرے جس طرح ادائیگی کا شریعت کا حکم ہے اور زکوٰۃ کو بھی ادا کرے یا یہ معنی کہ اپنے نفس کو بےمعنی باتوں اور رذیل اخلاقوں سے پاک کرے جیسے سورہٴ الشمس کی ایک آیت کا مفھوم ہے کہ اپنے نفس کو پاک کرنے والا فلاح پا گیا اور اسے گندگی میں لتھیڑنے (لت پت کرنے والا) تباہ ہو گیا نامراد ہو گیا …

ایمان میں سچے لوگوں کی ایک خوبی یہ بھی بتائی کہ یہ لوگ اللہ کے عہد کو پورا کرتے ہیں اور وعدے نہیں توڑتے، وعدے توڑنا نفاق کی خصلت ہے، جیسے حدیث میں ہے منافق کی تین نشانیاں ہیں، اگلی خوبی بتائی کہ جو فقر و فقہ میں مال کی کمی کے وقت، بدن کی بیماری کے وقت لڑائی کے موقعہ پر، دشمنان دین کے سامنے، میدان جنگ میں جہاد کے وقت صبر و ثابت قدم رہیں اور فولادی چٹان کی طرح جم جائیں ۔ایسے اوصاف والے لوگ ہی سچے ایمان والے ہیں ان کا ظاہر باطن قول فعل یکساں ہے اور متقی بھی یہی لوگ ہیں کیونکہ اطاعت گزار ہیں اور نافرمانیوں سے دور ہیں۔
ہم لوگوں کو بھی اپنے اندر یہ اوصاف پیدا کرنے کی پوری کوشش کرنی ہے …
الباني رحمۃ اللہ نے کہا
اللہ کی طرف جانے کا راستہ بہت لمبا ھے۔
لیکن ضروري نہیں کہ تم اس کے آخر تک پہنچو۔
ضروری صرف یہ جب تمہیں موت آئے تو تم اسی راستے پہ چل رہے ہو…
لہذا ہم کوشش جاری رکھیں گے کیونکہ الله ہماری نیت اور کوشش دیکھے گا…

بشکریہ: Nemrah Ahmed: Official

from Kuch Dil Se – کچھ دل سے ღ http://ift.tt/2rG9jc3

via IFTTT

2 thoughts on “سلسلہ “فہم القرآن”

  1. اللہ کی طرف جانے کا راستہ بہت لمبا ھے۔
    لیکن ضروري نہیں کہ تم اس کے آخر تک پہنچو۔
    ضروری صرف یہ جب تمہیں موت آئے تو تم اسی راستے پہ چل رہے ہو…

    بہت خوب۔۔

    Liked by 1 person