پر فتن حالات میں استقامت کی ضرورت – خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)

پر فتن حالات میں استقامت کی ضرورت – خطبہ جمعہ مسجد نبوی
بتاریخ:  25 ربیع الثانی 1439  ۔۔۔ 12 جنوری 2018
ترجمہ: شفقت الرحمان مغل
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس صلاح  بن محمد البدیر حفظہ اللہ نے 25 ربیع الثانی 1439  کا مسجد نبوی میں خطبہ جمعہ بعنوان “پر فتن حالات میں استقامت کی ضرورت” ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے کہا کہ دنیا دائمی قیام کی جگہ نہیں ہے اور نہ ہی یہاں ہمیشہ رہنے کی سوچ رکھی جا سکتی ہے، وقت اور زندگی گزرنے کا احساس نہیں ہوتا لیکن یہ بڑی سرعت سے ساتھ گزرتا جا رہا ہے اور ہمیں روزانہ کی بنیاد پر قبر کے قریب کر رہا ہے، اس لیے ہر ایک نے موت  کا ذائقہ چکھنا ہے،  دوسرے خطبے میں انہوں نے کہا کہ عارضی دنیاوی زندگی کے دوران انسان کو فتنوں سے بچ کر رہنا چاہیے، پھر انہوں نے واضح کیا کہ فتنہ اس چیز کا نام ہے کہ انسان اس دین سے پھر جائے جو جبریل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لیکر آئے تھے، نیز اگر کوئی شخص اپنی ہوس یا شہوت کی بنا پر کسی حلال کو حرام یا حرام کو حلال قرار دیتا ہے تو یہ شخص بھی فتنے میں ملوث ہے، آخر میں انہوں نے سب کے جامع دعا فرمائی۔
منتخب اقتباس:
تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہیں وہی جھولیاں بھرتا  ہے، وہی سب سے زیادہ نوازشیں فرماتا ہے، اللہ تعالی کی پیدا کی ہوئی مخلوقات صبح شام اسی سے زندگی اور رحمتوں کی آس اور امیدیں لگاتی ہیں، اس دھرتی پر ہونے والے حادثات موت کو بلا کر وقت نزع قریب لا رہے ہیں،  میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں  کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اس کے بندے اور رسول ہیں ، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی اولاد اور صحابہ کرام  پر دائمی ، ابدی اور سرمدی رحمتیں برکتیں اور سلامتی  نازل فرمائے۔
دنیا میں ہمیشہ رہنے کی امید نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی یہاں پر دائمی بقا کی آس لگائی جا سکتی ہے، یہاں لوگ جانے کے لیے ہی آتے ہیں، وقت دن اور رات کی صورت میں گزرتا چلا جا رہا ہے، موت جلد آ کر ہی رہے گی، ہر سانس انسان کو وقت پیدائش سے دور لے جا رہا ہے اور موت کے قریب کر رہا ہے ، پھر آخر کار جان بھی نکل  ہی جائے گی۔
ہائے موت کہ جس کا وقت آ کر رہے گا، جب زندہ  کی مدتِ زندگی پوری ہو جائے گی۔
عنقریب کسی بھی وقت یہ لمحات ایک ایسے لمحے تمہیں سپرد کر دیں گے کہ جس کے بعد تمہارے لیے مزید وقت نہیں ہو گا۔
دن کتنی تیزی کے ساتھ گزرتے جا رہے ہیں، خود بھی گزر رہے ہیں اور ہمیں بھی ساتھ لے جا رہے ہیں، ہر دن میں ہماری کوئی نہ کوئی خواہش دم توڑ جاتی ہے  اور ہم بھی موت کے قریب ہوتے جاتے ہیں۔
ہم سے پہلے بہت سے لوگ تھے وہ کہاں چلے گئے؟ وہ تو سراپا جمال و کمال  تھے!
زمانے نے انہیں بھی فنا کر دیا! جلد یہی زمانہ ہم پر بھی آئے گا!
کتنے ہی فوت شدگان ہم نے دیکھے کہ وہ بھی کبھی زندہ تھے! اب ہمارے ساتھ بھی عنقریب وہی ہو گا جو ہم نے کسی کے ساتھ دیکھا!
ہمیں کیا ہو گیا ہے کہ ہم موت سے بے خوف ہو گئے ہیں! کہ ہمیں موت آنے کی توقع ہی نہیں ہے!
اے غافل اور مدہوش !
کیا یہ بھول گئے ہو کہ ہم سب بشر ہیں؟!
ہم تقدیر کے گھیرے میں ہیں!
ہم محوِ سفر ہیں!
ہم ایک  گڑھے کی طرف جا رہے ہیں!
موت ہم سب کو آنی ہے!
حشر میں ہم سب نے اکٹھے ہونا ہے!
کب تک تم باز نہیں آؤ گے اور اپنے آپ کو لگام نہیں دو گے؟!
کب تک تم نصیحت کرنے والے کی بات پر کان نہیں دھرو گے؟!
کب تک تمہارا دل ملامت گر کے سامنے موم نہیں گا؟!
کیا ابھی تک وقت نہیں آیا کہ تم خشوع اپناؤ اور تہجد گزار بن جاؤ؟!
کیا ہم نیم بیہوشی میں ہیں یا ہمارے دل ہی پتھر ہو چکے ہیں؟!
پیارے بھائی ہوش کے ناخن لے، دیکھنا کہیں سوئے  نہ رہ جانا!!
اے دھوکے میں پڑے ہوئے ! تم خواب خرگوش میں ہو اور آگ کو دہکایا جا رہا ہے!
اس آگ کے شعلے بھجائے نہیں جائیں گے اور نہ ہی اس  کے انگارے ماند پڑیں گے!!
نبی ﷺ بھی اپنی امت کے لیے ہمیشہ نہ رہ سکے؛ اگر اللہ نے آپ سے پہلے کسی کو دائمی زندگی دی ہوتی تو آپ بھی ہمیشہ رہتے
ہم موت کے عین نشانے پر ہیں اس میں خطا کا امکان نہیں، اگر آج کوئی بچ بھی گیا تو کل نہیں بچ پائے گا۔
{وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ (34) كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ} 
(اے نبی) آپ سے پہلے بھی ہم نے کسی انسان کے لئے دائمی زندگی تو نہیں رکھی، اگر آپ فوت ہو جائیں تو کیا وہ  ہمیشہ رہیں گے؟[٣4] ہر جاندار کو موت کا مزا چکھنا ہے اور ہم تو تمہیں اچھے اور برے حالات (دونوں طرح) سے آزماتے ہیں اور بالآخر تمہیں ہماری طرف لوٹنا ہے۔ [الأنبياء: 34، 35]
کہاں ہیں وہ جن کے ساتھ ہم اکٹھے رہتے تھے اور ان سے محبت کرتے تھے؟
کہاں ہیں جن کے ساتھ دلی تعلق تھا اور ہم ان سے انس رکھتے تھے؟
ہم نے اپنے کتنے احباب کی  آنکھیں اپنے ہاتھوں سے بند کیں!؟
کتنے ہی  جان سے زیادہ عزیز ؛ اپنوں کو دفنایا اور  قبر سے واپس ہو لیے!؟
کتنے ہی پیاروں کو ہم نے قبروں میں تنہا لٹایا اور وہاں کھڑے بھی نہ ہوئے!؟
دھوکے و غفلت میں کب تک سرکشی کرو گے؟ اور کب تک سوئے رہو گے!؟ بیداری کا دن کب آئے گا؟!
ساری زندگی برباد ہو گئی، حالانکہ اس کے ایک لمحے کی قیمت آسمان و زمین  کے برابر ہے، یہ تم کیسا نے نقصان کر دیا!؟
بیوقوفی کرتے ہوئے تم نے دائمی زندگی کے بدلے  فانی ، رضا کے بدلے ناراضی، اور جنت کے بدلے جہنم خرید لی؟!
کیا تم اپنی جان کے دوست ہو یا دشمن؟! تم تو اسے مصیبتوں میں جکڑنا چاہتے ہو!
مجھے بڑا افسوس ہے کہ تم نے اپنی جان کو اونے پونے میں بیچ دیا! اور تم نے اپنے نفس کیساتھ  بالکل انصاف نہیں کیا!!
اللہ کے بندے!
آج من میں جو بھی آئے کر گزرتے ہو اور کل مر جاؤ گے اور قلمیں اٹھا لیں جائیں گی۔
کبیرہ گناہ کرنے سے انسان فاسق ہو جاتا ہے اور اسی طرح صغیرہ گناہ پر اصرار سے بھی
لیکن ان مہلک گناہوں  اور نافرمانیوں سے انسان ایمان سے خارج نہیں ہوتا۔
تاہم اس پر واجب ہے کہ توبہ کرے ایسے تمام افعال سے جسے گناہ کہا جاتا ہے۔
ابو موسی رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (بیشک اللہ تعالی رات کے وقت ہاتھ پھیلاتا ہے  تا کہ  دین میں گناہ کرنے والا توبہ کر لے، اور دن میں اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تا کہ رات کو گناہ کرنے والا توبہ کر لے، [یہ معاملہ اس وقت تک جاری  رہے گا]یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہو جائے۔) مسلم
{قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ} 
آپ لوگوں سے کہہ دیجیے: اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، اللہ یقیناً سارے ہی گناہ معاف کر دیتا ہے کیونکہ وہ غفور رحیم ہے [الزمر: 53]
مسلمانو!
دین اصل سرمایہ ہے، دین ہی حال اور مستقبل ہر دو حالت میں عزت اور شرف کا ضامن ہے۔
کسی بھی قسم کی کمی دین سے پوری ہو جاتی ہے؛ لیکن دینی کمی کسی چیز سے پوری نہیں ہوتی ہو سکتی۔
کوئی بھی مصیبت اور پریشانی چاہے وہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو، انسان کے لیے دینی مصیبت اور پریشانی سے کم تر ہوتی ہے۔
خیال کرنا کہ: فتنوں کا سیلاب امڈ آیا ہے، سانپوں کے رینگنے کے نشانات زمین واضح نظر آ رہے ہیں، جبکہ کچھ زیر زمین  ابھی تک چھپے ہوئے ہیں،  نر بچھو اور کنکھجورے  خفیہ انداز میں  دندنا رہے ہیں، نیز پتھروں کے نیچے ان کے زہریلے انڈے بھی چھپے ہوئے ہیں، یہ دنیا آزمائش اور ابتلا کا گھر ہے اس لیے اس آزمائش کے لیے تیاری رکھو۔
حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: “اللہ کے رسول! ہم برائیوں میں گھرے ہوئے تھے تو اللہ تعالی نے ان برائیوں کو ختم کر کے آپ کے ذریعے ہمیں خیر و بھلائی عطا فرمائی، تو کیا اس خیر کے بعد دوبارہ شر ہے؟” تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جی ہاں!) “تو  میں نے کہا:  وہ شر کیسا ہو گا؟” تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یہ شر اندھیری رات کے اندھیروں کی طرح  فتنوں جیسا ہو گا، یہ فتنے پے در پے آئیں گے،  ان کی آپس میں مشابہت ایسی ہو گی جیسے  گائیں ایک دوسرے سے مشابہت رکھتی  ہیں، تمہیں معلوم ہی نہیں ہوتا کون سی گائے کس سے پیدا ہوئی؟ ) مسند احمد
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ مزید کہتے ہیں کہ: “اگر آپ دین کی معرفت رکھتے ہیں تو آپ کو فتنہ کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔  فتنہ یہ ہے کہ آپ حق اور باطل میں فرق نہ کر سکیں اور آپ کو معلوم نہ ہو کہ کس چیز پر عمل پیرا ہونا ہے؟ یہ فتنہ ہے” مصنف ابن ابی شیبہ
انہوں نے مزید کہا کہ: “اگر کوئی شخص یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ فتنے میں مبتلا ہوا ہے یا نہیں تو وہ یہ دیکھے کہ  اگر کسی چیز کو پہلے حلال سمجھتا تھا لیکن اب حرام سمجھنے لگ گیا ہے تو وہ فتنے میں پڑ گیا، اور اگر وہ کسی چیز کو پہلے حرام سمجھتا تھا لیکن اب حلال سمجھنے لگ گیا ہے تو وہ فتنے میں مبتلا ہو چکا ہے” مستدرک حاکم، 
مطلب یہ ہے کہ انسان کا موقف کسی رائے، ذاتی ہوس یا شہوت کی بنا پر تبدیل ہو جائے تو یہ فتنہ ہے۔
امام مالک بن انس رحمہ اللہ کہتے ہیں: “[فتنہ یہ ہے کہ ] آپ کے پاس ایک سے بڑھ کر ایک کج بحثی کرنے والا آئے اور آپ کو اس دین سے پھیرنے کی کوشش کرے جو جبریل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے تھے
 ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:  “میں کسی ایسے عمل کو ترک نہیں کر سکتا جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمل پیرا تھے، مجھے تو خدشہ ہے کہ اگر میں نے آپ کی سنت میں سے کسی چیز کو ترک کر دیا تو کہیں گمراہ نہ ہو جاؤں”
اللہ کے بندو! کتاب و سنت، شریعت ، دین اور اخلاقی اقدار پر مضبوطی سے قائم رہو، گمراہ کرنے والوں  اور فتنہ پروروں سے بچو، خیال کرنا وہ تمہیں اللہ کی نازل کردہ شریعت سے معمولی سا بھی ہٹا نہ پائیں۔

via Blogger http://ift.tt/2D7x95j

3 thoughts on “پر فتن حالات میں استقامت کی ضرورت – خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)

  1. ویسے تو اللہ کی کسی بھی نعمت کا شکر ادا نہیں کیا جا سکتا، مگر توبہ ایک ایسی نعمت ہے جس کا جواب نہیں۔

    اللہ ہمیں آخر وقت تک واپسی کاموقع عطا فرماتے ہیں۔

    الحمد للہ۔

    Liked by 1 person

Leave a comment