قائد سا رہبر— ذاتی کاوش

ہمیں اب پھر ضرورت ہے
کسی قائد سے رہبر کی
جو اس ٹوٹی بکھرتی قوم کو پھر ایک جاں کردے
کہ اس کی رہبری میں پھر چلے یہ کارواں اپنا
اور اپنے دیس کو اک بار پھر سے ہم کریں تعمیر
بھلا کے دل سے ہر نفرت
نہ قوموں میں بٹیں ہم یوں
بس اک قوم بن کر پھر سے اس دنیا پہ چھا جائیں
ہمیں اب پھر ضرورت ہے
کسی قائد سے رہبر کی
ہماری ڈوبتی کشتی کو لہروں سے نکالے جو
ہمیں یکجا کرے اور کشتی کو سنبھالے جو

سیما آفتاب

سمت کی اہمیت

ایک گاڑی خراب ہو گئی۔۔۔ ڈرائیور نے سوار لوگوں سے کہا کہ دھکا لگاؤ ۔۔۔ سوار اترے اور گاڑی کو اپنی اپنی سوچ کے مطابق دھکا لگانے لگے۔۔۔کچھ نے سائیڈ پر دھکا لگانا شروع کر دیا ۔۔۔ پھر ہوا یوں کہ گاڑی الٹ گئی ۔۔۔

ایک اور گاڑی خراب ہوئی ۔۔ ڈرائیور نے سواریوں کو دھکا لگانے کا کہا ۔۔۔ اس بار ڈرائیور نے انہیں کہا کہ دھکا اگلی سمت میں لگانا ہے تاکہ گاڑی سائیڈ پر لگا کر انجن چیک کر سکوں۔۔ اس بار بھی دھکا لگا یا گیا لیکن گاڑی الٹی نہیں بلکہ آگے بڑھی ۔۔۔


جب تک دھکا لگانے والوں کو سمت کا بتایا نہیں گیا تھا ، ان کی محنت نتیجہ تو لائی لیکن انتہائی تکلیف دہ ۔۔۔ لیکن جب وہی محنت درست سمت میں ، ایک ساتھ ہوئی تو نتیجہ بھی آیا ۔۔۔ گاڑی بھی چلی اور سڑک کی سائیڈ پر گاڑی لاتے ہوئے ، خطرات سے محفوظ کرتے ہوئے۔۔ ڈرائیور کو موقع ملا کہ گاڑی کو درپیش مسئلہ سلجھا سکے۔۔۔

کہتے ہیں سو میل بھی جانا ہو ۔۔۔یا دس قدم چلنے ہوں ، پہلا قدم ہی کامیابی کی ضمانت بنتا ہے بشرطیہ کہ ٹھیک سمت میں اٹھا یا جائے۔۔۔ اب اگر اس مثال سے، ڈائیرکشن کا پہلو نکال دیں تو دس قدم بھی بے معنی اور تکلیف دہ اور سو میل بھی بےمعنی اور تکلیف دہ بن جاتے ہیں۔۔۔

پس ثابت ہوا کہ سمت سب سے اہم جز ہے ۔۔۔ چاہے کوئی بھی عمل کی ہو ۔۔۔ سمت مقصد کا راستہ بناتی اور بتلاتی ہے۔۔ جو افراد کے لئے مقصد کی طرف چلنے کو سہل اور تمام دشواریوں کے با وجود ، پر لطف بنا ڈالتی ہے ۔۔۔ لیکن وہ مقصد جس کے حصول کے لئے متضاد سمتیں ہوں ۔۔۔ تکلیف دہ ،مشکل اور افراد کو بے حس کر دیتا ہے۔۔۔

پھر ماہ دسمبر آیا ہے-

پھر ماہ دسمبر آیا ہے
سنگ اپنے بہت کچھ لایا ہے
کچھ اوڑھ کے رنگ اداسی کے
کچھ درد بھرے پچھتاوے ہیں
کچھ ٹوٹے بکھرے وعدے ہیں
کچھ دل میں خوشی کی پیاس لیے
کچھ امیدیں، کچھ آس لیے
اس ماہ دسمبر میں یارو
چلو آو سبھی پیمان کریں
کہ دل سے بھلا کر ہر رنجش
آپس میں دل ہم جوڑیں گے
ناکامی سے منہ موڑ کے ہم
پھر ہمت اپنی جوڑیں گے
دامن کو چھڑا کر ہر غم سے
خوشیوں سے رشتہ جوڑیں گے
سب بھول کے اپنے سود و زیاں
نئے سال کا کھاتہ کھولیں گے

سیما آفتاب
27-12-2011
پھر ماہ دسمبر آیا ہے
سنگ اپنے بہت کچھ لایا ہے
کچھ اوڑھ کے رنگ اداسی کے
کچھ درد بھرے پچھتاوے ہیں
کچھ ٹوٹے بکھرے وعدے ہیں
کچھ دل میں خوشی کی پیاس لیے
کچھ امیدیں، کچھ آس لیے
اس ماہ دسمبر میں یارو
چلو آو سبھی پیمان کریں
کہ دل سے بھلا کر ہر رنجش
آپس میں دل ہم جوڑیں گے
ناکامی سے منہ موڑ کے ہم
پھر ہمت اپنی جوڑیں گے
دامن کو چھڑا کر ہر غم سے
خوشیوں سے رشتہ جوڑیں گے
سب بھول کے اپنے سود و زیاں
نئے سال کا کھاتہ کھولیں گے

سیما آفتاب
27-12-2011