آج کی بات ۔۔۔ 27 جولائی 2015

کچھ باتیں عقل سے اور بہت سی باتیں عمر سے سمجھ آتی ہیں۔
دعا یہ کرنا چاہیے کہ جب ہماری عمر اُن باتوں کو سمجھنے کے قابل ہو جائے تو ہماری عقل بھی سلامت رہے ورنہ عمر کے تجربے بےکار ٹھہرتے ہیں۔
اور عقل سے بات سمجھنے کا بس ایک اصول ہے کہ مانتے جاؤ ۔۔سنتے جاؤ اور فیصلے صادر نہ کرو وقت خود ہی ہر شے کی اصلیت ظاہرکر دیتا ہے۔
تحریر: نورین تبسم 

قرآن شریف کا قدیم ترین نُسخہ برمنگھم یونیورسٹی میں دریافت

سُبحان اللہ ۔ نہ مُلک مسلمانوں کا ۔ نہ یونیورسٹی مسلمانوں کی ۔ نہ محقق مُسلم ۔ اور ثبوت کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے زمانہ سے آج تک قرآن کی عبارت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ۔ تفصیل کچھ یوں ہے

اتحادیوں کی سلطنت عثمانیہ پر 1908ء سے 1918ء تک یلغار کے نتیجہ میں شرق الاوسط (مشرقِ وسطہ) اتحادیوں کے قبضہ میں چلا گیا ۔ آج کا عراق اُن دنوں تعلیم کا گڑھ تھا ۔ 1920ء میں کلدائی قوم کا ایک پادری (بابل کا باشندہ) الفانسو مِنگانا (Alphonse Mingana) مُوصل سے عربی کے 3000 قلمی نُسخے برطانیہ لے کر گیا تھا ۔ یہ نُسخے 95 سال سے مِنگانا کا ذخیرہ (Mingana Collection) کے نام سے برمنگھم یونیورسٹی کی لائبریری میں گُمنام حیثیت میں پڑے تھے اور کسی کے عِلم میں نہ تھا کہ ان میں قرآن شریف کا دنیا کا قدیم ترین نُسخہ بھی ہے
قرآن شریف کے اس نُسخے کی عمر کا تعین ریڈیو کاربن ڈیٹنگ (Radiocarbon dating) یعنی جدید سائنسی طریقہ کے ذریعہ کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ یہ نسخہ کم از کم 1370 سال پرانا ہے ۔ چنانچہ یہ قرآن شریف کے دنیا میں اب تک حاصل کئے گئے قدیم ترین نسخوں میں سے ایک ہے ۔ برطانیہ کے لائبریری ماہر ڈاکٹر محمد عیسٰے والے کا کہنا ہے کہ یہ ایک حیران کُن دریافت ہے جس سے مسلمانوں کو مُسرت ہو گی

یہ اوراق بھیڑ یا بکرے کی کھال کے ہیں
 پرانے ترین نُسخے
جب پی ایچ ڈی کرنے والے محقق البا فیڈیلی (Alba Fedeli) ان اوراق کی باریک بینی کی تو ان کی ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور نتیجہ حیران کن نکلا ۔ ٹیسٹ کرنے کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی کے ریڈیو کاربن ایکسلریٹر یونٹ (Oxford University Radiocarbon Accelerator Unit) نے بتایا کہ بھیڑ اور بکرے کی کھال پر لکھے گئے قرآن شریف کے نسخے بہت پرانے ہیں ۔ یونیورسٹی کے مخصوص مخازن کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ ہم نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ یہ نسخہ اتنا پرانا ہو گا

2
برمنگھم یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ تھامس (Prof David Thomas) جو اسلام اور عیسائیت کے پروفیسر ہیں نے کہا ”جس کسی نے بھی اسے لکھا ہو گا وہ ضرور رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کو قریب سے جانتا ہو گا اور اُس نے اُنہیں بولتے ہوئے بھی سُنا ہو گا ۔ ان ٹیسٹوں سے جو 95 فیصد درست ہوتے ہیں قرآن شریف کے نسخے کے مختلف اوراق کی تاریخیں 568ء اور 645ء کے درمیان نکلتی ہیں ۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ اس کی لکھائی طلوعِ اسلام کے چند سال کے اندر شروع ہوئی“۔
پروفیسر ڈیوڈ تھامس نے مزید کہا ”مسلمانوں کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم پر قرآن شریف کا نزول 610ء اور 632ء کے درمیان ہوا جبکہ 632 اُن کے وصال کا سال ہے“۔
3

پروفیسر ڈیوڈ تھامس نے بتایا کہ قرآن شریف کے کچھ حصے کھال کے بنے کاغذ ۔ پتھر ۔ کھجور کے پتوں اور اونٹ کے کشانے کی چوڑی ہڈی پر بھی لکھے گئے تھے ۔ ان سب کو کتابی شکل لگ بھگ 650ء میں دی گئی تھی ۔ متذکرہ نسخے کی عبارت تقریباً وہی ہے جو آج کے قرآن شریف کی ہے ۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے قرآن شریف میں کوئی تحریف نہیں ہوئی یا بہت ہی کم تبدیلی ہوئی ہے“۔
حجازی رسم الخط میں لکھا ہوا قرآن شریف کا نسخہ سب سے پرانے نسخوں میں سے ایک ہے ۔ برمنگھم یونیورسٹی میں موجود نسخہ زیادہ سے زیادہ 645ء کا ہو سکتا ہے
یہ معلومات سین کوفلان (Sean Coughlan) کے 22 جولائی 2015ء کو شائع ہونے والے مضمون سے لی گئیں

’ﺍللہ ’ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﺩﯾﺮ ﮨﮯ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ


ﻣﺎﯾﻮﺱ ﮐﺒﮭﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺲ ﮐﻮ ﯾﻘﯿﻦ ﮨﮯ
’ﺍللہ ’ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﺩﯾﺮ ﮨﮯ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ 
ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﺎ ﭘﯿﭧ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﺎ ﺳﺎﯾﮧ 
 ﺍﺱ ﺑﮯ ﻧﯿﺎﺯ ﺫﺍﺕ ﻧﮯ ﯾﻮﻧﺲ ﮐﻮ ﺑﭽﺎﯾﺎ
ﺟﺐ ﺁﮒ ﺳﮯ ﻧﻤﺮﻭﺩ ﮐﺎ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﮔﺮﻡ ﺗﮭﺎ 
 ﺍﺳﮑﮯ ﮐﺮﻡ ﻧﮯ ﺁﮒ ﮐﻮ ﻣﺮﺩﺍﺭ ﺑﻨﺎﯾﺎ 
 ﻭﮦ ﺩﻭﺭ ﮨﮯ ﮐﺐ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ گوﺷﮧ ﻧﺸﯿﻦ ﮨﮯ 
’ﺍللہ ’ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﺩﯾﺮ ﮨﮯ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ

ﻣﺸﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ نہ ﺁﯾﺎ ﻧﻈﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﮩﺎﺭﺍ 
 ﻣﻮﺳﯽ ﻧﮯ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮐﯽ ﻣﻮﻻ ﮐﻮ ﭘﮑﺎﺭﺍ 
 ﺁﮔﮯ ﺗﮭﺎ ﻧﯿﻞ , ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺗﮭﯽ ﻓﺮﻋﻮﻥ ﮐﯽ ﻓﻮﺟﯿﮟ 
 ﮐﺲ ﻧﮯ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﻧﯿﻞ ﮐﯽ ﻣﻮﺟﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﻨﺎﺭﮦ 
 ﺍﺗﻨﺎ ﮐﺮﯾﻢ ﺭﮨﻨﻤﺎ ﺳﻮﭼﻮ ﺗﻮ ﮐﮩﯿﮟ ﮨﮯ 
 ’ﺍللہ ’ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﺩﯾﺮ ﮨﮯ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ

ﺍﻣﯿﺪ ﮐﺎ ﺩﺍﻣﻦ ﻧﺎ ﮐﺴﯽ ﺣﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﻭ 
 ﮔﮭﺒﺮﺍﺅ ﻧﮩﯿﮟ , ﺻﺒﺮ ﮐﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﻧﺎ ﺗﻮﮌﺩﻭ 
 ﺗﻘﻮﯼ ﮨﻮ ﺍﮔﺮ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﻣﻠﺘﯽ ﮨﮯ ﺧﺪﺍﺋﯽ 
 ﺍﺱ ﺫﺍﺕ ﺑﻨﺎ ﮐﻮﻥ ﺳﻨﮯ ﺗﯿﺮﯼ ﺩﮨﺎﺋﯽ 
 ﻭﮦ ﺫﺍﺕ ﺟﻮ ﮨﺮ ﺷﺨﺺ ﮐﯽ شہ رگ ﻣﯿﮟ ﻣﮑﯿﻦ ﮨﮯ
 ’ﺍللہ ’ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﺩﯾﺮ ﮨﮯ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ

ﻣﺎﯾﻮﺱ کبھی ﮨﻮﺗﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺲ ﮐﻮ ﯾﻘﯿﻦ ﮨﮯ 
 ’ﺍللہ ’ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﺩﯾﺮ ﮨﮯ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ

مسافر سفر اور منزل


سفر ….درحقیقت خود کو دریافت کرنے کا عمل ہے ….ایک گم گشتہ ”خود“ کی دریافت کا عمل ….خود کو بازیافت کرنے کا عمل ! …. اِس یافت اور بازیافت کے دائرے میں سفر کرتا ہوامسافر اپنی ” میں “ کھو بیٹھتاہے ….تاکہ وہ کسی ”تو“ کے حضور باریاب ہوسکے ۔ ”میں “ …. جب ”تو“ کے حضور پہنچتی ہے تو ”من و تو“ کی بحث ختم ہو چکی ہوتی ہے۔ کوئی ”در“ یافت ہوجائے تو نایافت …. یافت ہونے لگتاہے ۔ باہر ”تو“ دریافت ہوتے ہی ”من ‘ ‘ کا ”اندر“ بازیافت ہوجاتاہے

 !!
یہ سفر نہیں بلکہ اندازِ سفر ہے جومسافر کی منزل کا پتہ دیتاہے۔ کوئی منفی انداز کسی مثبت منزل تک نہیں لے جاسکتا۔ کوئی متغیر اور منفی طرزِ فکر اُس منزل تک رسائی نہیں پاسکتاجسے ثبات اور اثبات کانام دیاجاتاہے ۔ بہت سے مسافر سوئے کعبہ روانہ ہوئے مگر اُن کی نیّت اُنہیں ذات کی بجائے ذاتیات میں لے گئی …. اُن کا اندازِ سفر اُنہیں اپنے مفادات کے سومنات کی طرف لے گیا۔ درحقیقت سوئے حرم جانے والے مسافر کی راہ میں ہر غرض ایک بُت ہے ….ہر مفاد ایک معبود

مسافر سفر اور منزل کے درمیان ایک راز عجب ہے ۔ مسافر سفر کرتا ہوا خود ہی نشانِ منزل بن جاتاہے …. اور آخر ِ کارخود ہی منزل!!

گویا مسافرجب اپنے سفر کے اختتام کو پہنچتاہے تو خود کو بصورتِ منزل پاتا ہے…… بلاشبہ خود کو پانا ہی منزل پانا ہے.