یٰلَیْتَنِیْ سے سَلَامٌ عَلَيْكُمْ-1

یٰلَیْتَنِیْ سے سَلَامٌ عَلَيْكُمْ
“اے کاش” سے “تم پر سلامتی ہو”

قسط نمبر 1

چندھیائ ہوئی آنکھوں کے ساتھ میں ان دو پٹریوں کے سامنے کھڑی تھی جن میں آگے جا کر مزید پٹریاں ایک دوسرے میں ملتی گھلتی جا رہی تھیں ۔ دھند ہی دھند تھی ۔ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے میرے ارد گرد ہر طرف دھند یا دھویں سے بنی دیواریں کھڑی ہو گئ ہوں ۔ زمین پہ بھی آسمان کی روئی سا گمان ہو رہا تھا ۔ ہوا سرسراتی ہوئی آس پاس سے گزر رہی تھی ۔ اچک کر ریلوے سے پار دور کہیں منزل کھوجنے کی کوشش کی مگر کشمکش بڑھ گئ ۔ نہ کچھ دکھائی دیتا تھا نہ کچھ سجھائی دیتا تھا ۔ شاید نگاہ کی وسعت کم علمی کی باعث کچھ خاص آگے نہ جاپائی تھی ۔ منزلیں دو تھیں، اختیار ایک تھا۔ آگاہی نہ تھی کہ منزل در حقیقت ہے کیا؟ کیسی ہو سکتی ہے،کیسی ہونی چاہیے ؟ آگاہی کے لیے جابجا راہنما تو موجود تھے مگر ابلیسی فخر و غرور میرے دامن کو تھامے ہوئے تھا ۔ بھنچے ہوئے ناتواں دماغ کی ناقص عقل کا غرورتھا اور گماں کے سفر کا حال یہ تھا کہ سوچ نے من پسند تہلکہ مچایا ہوا تھا ۔ تہہ میں جانا کہاں کی عقلمندی ھے؟ یہ صاف سامنے دو راستے موجود ہیں۔ درست راستے کا انتخاب کر کے قدم بڑھا دینے ہیں۔ نظر مجھے بھی آتا ہے کہ یہ پٹری خوبصورت ہے اور یہ ٹوٹی پھوٹی ۔ تو بھلا کسی خاص راہنمائی کی کیا طلب؟ راہنمائی کی طلب انہیں ہوا کرتی ہے جنہیں راستے دکھائی نہ دیتے ہوں اور اگر دکھائی دیے جائیں تو سجھائی نہ دیتے ہوں ۔ اور میں ان لوگوں میں شامل تھی جنہیں نابینا نہیں کہا جاتا ۔ مگر عجیب سا سفر تھا کہ کوئی ہمراہ نہیں تھا ۔ لوگ آ جارہے تھے مگر کسی کو جیسے کسی سے سروکار ہی نہ تھا ۔
سامنے بچھے دو طویل راستے ۔۔۔
کانٹے جھاڑیوں سے پاک یہ راستہ ایک عجیب روشنی لیے ہوئے تھا جو دل و دماغ کو مدھوش کر رہی تھی ۔ جس کے سامنے میں کھڑی تھی ۔
آہ! یہ کس قدر دلکش راستہ ہے اور یہ دوسرا راستہ یہ کتنا کٹھن لگتا ہے مگر نجانے کیوں پرنور سا لگتا ہے جیسے سکون کی لہر اوپر نیچے دوڑ رہی ہو ۔ دوسری طرف موجود طویل سڑک کا تاثر عجیب سا تھا ۔ وہ کھٹن نہیں بھی تھا لیکن تھا بھی ۔ جانے کیوں پھر بھی پرنور سا لگ رہا تھا ۔ پرسکون سا۔۔۔ تو پھر ؟ مجھے کسی سے پوچھ ہی لینا چاہیے ۔ نہیں ۔۔۔۔ ظاہر ہے یہ خوبصورت راستہ ہی میرا انتخاب ہونا چاہیے اس میں بھلا کسی راہنما کی کیا ضرورت ہے ۔ دماغ دل کو سمجھاتا تو مگر دل تھا کہ کسی ضدی بچے کی مانند اس دوسرے راستے کی طرف ہمک رہا تھا۔ نجانے کیوں ۔۔۔۔
اگر آج درست فیصلہ نہ کیا تو منزل دور رہ جائے گی۔ اور منزل کا دور رہ جانا گویا تباہی تھی ۔ ایسے جیسے ہمیں کسی مشین کی طرح بنایا گیا ہو اور اس میں “منزل” نامی لفظ فٹ کر دیا ہو ۔
میں نے ارد گرد دیکھا ۔ کھڑے ہو ہو کر تھکن سی ہونے لگی تھی ۔ بیٹھنے کو جگہ مل جائے تو کمر سیدھی ہو ۔ کوئی خاص جگہ نہ پا کر میں دائیں طرف موجود دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئ ۔ لوگ آ جا رہے تھے اور میری نظریں دھند میں ان کے چہرے کھوجنا چاہ رہی تھیں ۔ آخر سب کہاں جا رہے ہیں؟ کیوں جا رہے ہیں؟ میں کہاں سے آ گئ ہوں ۔ ہوں کون؟ کیا مقصد ہے؟ منزل کیا ہے؟ کیوں ہے، کیسے ہے ؟

ان ہی سوچوں کی یلغار اک غبار کی مانند ذہن پر چھائی جا رہی تھی کہ یکا یک کسی نے مجھے پکارا ۔
یا بنت حوّا!
یہ پکار تھی گویا اک خوف کی لہر جو پورے بدن میں مثل برق دوڑ گئی ۔ آھستہ سے پلٹی کہ آواز بائیں جانب سے آئی تھی ۔ وہاں کھڑا شخص شناسا محسوس ہوا گویا اسے پہلے سے جاننے والوں کی لڑی میں پرویا گیا ہو ۔ سفید لباس اور سفید ہی داڑھی نے ان کی ذات کو ایک روشن ہالے میں مقید کر دیا تھا ۔ میں بے اختیار کھڑی ہو گئ اور بات سننے ان کی طرف بڑھی ۔
یہ شخص۔۔۔۔ کہیں دیکھا ہے شاید لیکن کون ہے؟ اگر نہیں جانتی تو ان کی طرف کھنچ کیوں رہی ھوں؟ سوچ پھر مسلط ہوئے چاہتی تھی کہ مدبر سی آواز کانوں میں رس گھول گئی۔

“یاحبیبتی! آپکو کوئی مسئلہ درپیش ھے کیا ” ؟

یہ سوال سننا تھا کہ لب خود بخود جدا ہوئے ۔ “مجھے منزل چاھیے ” ۔ اپنی آواز خود مجھے اجنبی سی لگ رہی تھی ۔ جیسے ہر چیز کو جان کر بھلا دیا گیا ہو ۔ ہاں میں جانتا ہوں! وہ دو ہاتھ آگے بڑھے اور انہوں نے ایک کتاب مجھے دینی چاھی ۔ یابنت حوا! یہ لو یہ ہے گائیڈ بک جس سے تم درست راستہ منتخب کر سکتی ہو ۔ شاید وہ بھی ایک راہنما تھے اور مجھے یہاں کشمکش میں کھڑے دیکھ کر آ گئے تھے ۔
ان کی شخصیت بہت مسحور کن تھی ۔ میں نے نا چاہتے ہوئے بھی وہ کتاب تھام لی ۔ آواز پھر آئی . اسے تھام لو، اسے پڑھو اور اگر کہیں اسے سمجھنے میں مشکل محسوس ہو تو اس کے لیے یہ کتب مجھ سے لے لو اس پر عمل کر کے چل پڑھو منزل مل جائے گی ۔ اس میں صاف لکھا ھے کہ کون سا راستہ درست ہے ۔ فارغ مت بیٹھو،وقت مت ضائع کرو ۔ وقت کم ہے چل پڑو ۔ انہوں نے چند کتابیں اور میرے ہاتھ میں تھما دیں ۔
میں نے نظر جھکا کر ان کو کتابوں کو غور سے دیکھا پھر شکریہ کہنے کے لیے سر اوپر کیا پر۔۔۔۔ وہاں اب کوئی نہیں تھا ۔ مجھے ایک جھٹکا سا لگا، ایک لمحے کو ششدر رہ گئ ۔ ممکن تھا کہ اسی حیرت میں انہیں پکارتی مگر پھر کسی نے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ اک سرد لہر روح میں سرایت کر گئ ۔ گھبرا کر مڑی ۔یہ دو تین بندے تھے۔ خوبصورت پوشاک زیب تن کیے اس خوبصورت راستے کی طرف کھڑے تھے۔ جس راستے کی خوبصورتی سے میں پہلے ہی اسی پہ چل کر منزل کے مل جانے کا گمان کر رہی تھی ۔ مگر ان کے چہرے باوجود خوبصورتی کے عجیب سی وحشت کا تاثر دے رہے تھے ۔ میں کچھ سمٹ سی گئ ۔ اجنبیت میرے ارد گرد پوری طرح پھیل چکی تھی ۔
اے لڑکی! تم مجھے کسی مشکل میں دکھائی دیتی ہو ۔ یقیناً راستے کے انتخاب میں دشواری ہے۔ یہاں جو بھی کھڑا ہوتا ہے اسی مشکل میں ہوتا ہے اور یہ جو بندہ تمہیں کتابیں دے گیا ہے پتا ہے کون ہے؟
کون ہے؟ میری آواز تھرتھراتی ہوئی باہر آئی اور فضا میں پھیل گئ ۔
یہ بہت بڑا فنکار ہے۔ اپنی باتوں میں پھنسا کر لوگوں کو غلط منزل پر چلا جاتا ہے اور پھر جشن مناتا ہے۔ اس کے نورانی چہرے اور باتوں پر دھیان نہ دینا ورنہ ماری جاؤ گی۔ ادھر دیکھو ھم لوگوں کو اسی بندے سے بچاتے ہیں ۔ اسی لیے ہمیں یہاں کھڑا کیا گیا ہے ۔ ان کی بات سن کر میں مزید حیران ہو گئ اور ان سے پوچھا ۔
تو کون سا راستہ درست ہے؟ ابھی میں نے یہ کتابیں نہیں پڑھیں ۔پھر مجھے کہاں جانا چاہیے؟
یہ خوبصورت راستہ ہی درست منزل ہے ۔ یہاں دیکھو تمھارے لیے نعمتوں کے انبار ہیں،کامیابی کی راہیں ہیں ۔ ادھر آ جاؤ ۔ ایک شخص نے یہ کہتے ہوئے ہاتھ آگے بڑھایا ۔ میں نے ایک دم دل میں خوشی محسوس کی ۔ نعمتیں، کامیابی ،منزل ۔۔۔۔۔ یہی تو چاہیے مجھے ۔
اسی لیے تو کسی راہنما سے پوچھنا نہیں چاہ رہی تھی کہ جانے کتنے دھوکے باز یہاں موجود ہوں ۔ ایک سبق جو میرے ذہن میں جانے کب سے موجود تھا وہ نعمتوں کا حاصل کرنا. دل اپنے مقصد کی جانب ہمکنے لگا ۔

اس نورانی شخص کی باتیں ذہن سے جھٹک دیں شکر ہے جان بچی لاکھوں پائے ۔ مجھے ابھی اور بھی بہت کچھ سوچنا تھا کہ ان میں سے کوئی بولا اے لڑکی! جلدی کرو آ جاؤ کامیابی کی طرف۔۔۔ میں جلدی سے آگے بڑھی کہ ایک صدا دل دہلا گئ لا لا بنت حوّا… نہیں نہیں ۔۔۔ صدا جیسے اس دوسرے راستے سے بلند ہوئی تھی ۔ قدم گویا جم گئے ۔ شاید مجھے یہاں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے ۔ ایک وسوسے نے سر اٹھایا ۔ کچھ دیر مزید سوچ لینا چاہیے ۔ لیکن مجھے تب تک کیسے پتا چلے گا کہ کون سا راستہ درست ہے جب تک میں ان راستوں کو دیکھ نہ آؤں ۔ ایسا کرنا چاہیے کہ مجھے دونوں پہ باری باری چلے جانا چاہیے پھر جو ٹھیک لگا اس کو چن لوں گی ۔ دل نے اس راستے کی حمایت کے لیے جواز گھڑا جو دماغ کو بھی پسند آگیا تو میں کتابیں سینے سے چمٹائے آگے بڑھ گئ ۔
وہ سب میرے آگے چل رہے تھے جیسے انہیں میرے لیے ہی بھیجا گیا ہو ۔جانے ان سب کو میرے نام سے کس نے آگاہ کیا ہے ۔
وہ راستے دیکھنے میں بہت قریب لگ رہا تھا لیکن اس تک پہنچنے میں کچھ دیر لگ گئ ۔ میں ماحول کے زیر اثر اپنی سوچوں میں ہی کھوئی جا رہی تھی جیسے دماغ کو بھی اسی دھویں نے اپنے قبضے میں کر لیا ہو ۔ میں ان لوگوں کے پیچھے چل رہی تھی کہ ایک دم مجھے احساس ہوا کہ میں اکیلی نہیں ہوں۔ میرے آگے پیچھے لوگ ہیں. اس راستے پہ بھی، اس راستے پہ بھی ۔ کوئی کہاں جا رہا ہے کوئی کہاں جا رہا ہے ۔ کسی کے ہاتھ میں کتابیں ہیں تو کوئی خالی ہاتھ میری طرح انتظار میں کھڑا تھا ۔ ان سب کو دیکھ کر دل کو کچھ ڈھارس ملی تو قدم تیز ہو گئے ۔ جانے وہ پٹری کیا چیز ہے اور دیوار کیا چیز ۔۔۔میں کون ہوں اور یہ سب کیا ہے ۔ سوالات ایک دائرے میں ناچ رہے تھے ۔ چلتے چلتے آخر وہ راستہ قریب آ ہی گیا تھا یا شاید میں اس کے قریب پہنچ ہی گئ تھی ۔ ان لوگوں کے پیچھے چلتے ہوئے قدم اس پٹری پر پڑا ہی تھا کہ میں ہنسی کے فواروں میں نہا گئ ۔

جاری ہے ۔۔۔
(عفیفہ شمسی)